Thursday, 9 July 2015

شبِ قدر کی فضیلت

(شب ِ قدر )
ہزار مہینوں سے افضل اور خیر و برکت والی رات
_______________________________مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ يْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَمِنْ ذَنْبِهِ
_______________________________
.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910’’
جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘________________________________________________________ .رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر و برکت والی رات ہے۔ قرآن پاک میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”بے شک ہم نے اس )قران( کو شب قدر میں اتارا ہے اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔ شب قدر )فضیلت ، و برکت اور اجر وثواب میں ( ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس )رات( میں فرشتے اور روح الا مین )جبرائیل ؑ( اپنے رب کے حکم سے )خیر و برکت کے ( ہرامر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے۔“ )سورةالقدر(خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے جو شخص یہ ایک رات عبادت میںگزاردے گویا اس نے تراسی سال اور چار مہینے سے زیادہ کا عرصہ عبادت میں گزار دیا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینے سے کتنے مہینے زیادہ افضل ہے۔ یہ حقیقتاََ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی بڑا انعام ہے کہ اس نے امّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ نعمت بے بہا مرحمت فرمائی ہے جو پہلی اُمتوں کو نہیں ملی۔لیلتہ القدر کی فضیلت احادیث نبوی کی روشنی میں :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا وہ شخص جو حقیقتاََ محروم ہی ہے۔ ) ابنی ماجہ ۔ مشکوٰة(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایتہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ” جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے )عبادت کےلئے( کھڑا ہو ا اس کے پچھے تمام گناہمعاف کردیئے جاتے ہیں“)بخاری ۔مسلم(اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ” لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو“)بخاری ۔مشکوٰة(حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے بارے میںدریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: شب قدر‘ رمضان کے آخری عشرے کیطاق راتوں میںہے ۔ یعنی 21, 23 , 25 , 27, 29 ، یا رمضان کی آخری رات میں، جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس رات میں عبادت کرے اس کے پچھلے سب گناہ معافہوجاتے ہیں ۔ اس رات کی علامات یہ ہیں کہ وہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی ، بلکہ معتدل گویا کہ اس میں )انوار کی کثرت کی وجہ سے ( چاند کھلا ہوا ہے۔“نیز اس رات کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس رات کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔ بالکل ایسا ، ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند ۔)مسند احمد ۔ بہقی(اعتکاف کا مقصد بھی دراصل تلاش ِشب قدر ہے ۔ اسی لئے رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف سنت قرار دیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تک اللہ تعالیٰ نے اس شب قدر کے تعین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا ، آپ اس کی تلاش کے لئے پورا رمضان کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جب آگا ہ فرمادیا گیا تو وصال تک صرف آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے رہے۔
شب قدر کی کچھ نشانیاں احادیث اور صالحین کے تجربات کی روشنی میں یہ ہیں ، اس مخصوس رات میں فرشتوں کے نزول کی وجہ سے ایک خاس قسم کی سکونیت محسوس ہوتی ہے ۔ دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔ اس رات زیادہ سردی یا گرمی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ معتدل ہوتی ہے۔ یہ رات کھلی اور روشن ہوتی ہے بہر حال نمازی کو اس رات میں معمول سے زیادہ راحت حاصل ہوتی ہے اورذہن پر کیف و سرور کی سی کیفیت چھائی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت رات میں عبادت کی توفیق عطا فرمائے ۔دعا ہے ۔یااللہ ہماری تمام عبادات کو قبول فرما۔یا اللہ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما اور ہماری تمام پریشانیاں ، بیماریاں دورفرما۔ یااللہ ہمارے رزق ، مال اور جان کی حفاظت فرما اور ان میں برکت عطا فرما۔ یااللہ ہمیں تاحیات پنچ وقتہ نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور والدین کا فرمانبردار بنا ۔ آمین
‎Share‬ Karna Mat Bhuliyega JAZAKALLAH

Wednesday, 8 July 2015

AayatULkursi

Please Share This Post

ALLAH Bahot Raheem O Kareem Hy

بنی اسرئیل میں ایک نوجوان تھا وہ بے انتہاء نافرمان تھا لوگوں نے اسے بستی سے نکال دیا جنگل میں پناہ لی . نہ کھانے کو غذا نہ پینے کو پانی .. چند دن کے بعد اسے موت اپنے سر پہ منڈلاتی نظر آئ . اس نے دائیں دیکھا بائیں دیکھا دور دور تک کوئی سہارا نظر نہ آیا .. بڑی ندامت سے نگاہ آسمان پہ ڈالی ..." اے وہ ذات جو معاف کرنے سے گھٹتا نہیں اور عذاب دینے سے بڑھتا نہیں میں نے ساری زندگی تیری نافرمانی کرتا رہا مجھے سب نے چھوڑ دیا ہے میں نے سنا ہے تو بڑا کریم مولا ہے مجھے تو مت چھوڑ دینا میں آ رہا ہوں تیرے پاس .. اور وہ مر گیا ..موسیٰ علیہ سلام کو وحی آئ موسیٰ میرا ایک ولی جنگل میں فوت ہو گیا جا اسکا جنازہ پڑھ . جو اس کا جنازہ پڑھے گا میں اسکی بھی بخشش کر دونگا .. لوگوں نے جب اسے دیکھا تو کہا موسیٰ یہ تو بڑا بدمعاش تھا یہ کیسے ولی ہو سکتا ہے .. الله نے موسیٰ علیہ سلام سے فرمایا موسیٰ یہ مرتے مرتے جب بے بسی سے مجھے پکار رہا تھا تو میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ جسے سب نے چھوڑ دیا ہو اسے میں بھی چھوڑ دوں موسیٰ میری عزت کی قسم اگر اس وقت یہ پوری دنیا کی بھی بخشش مانگتا تو میں اس کے آنسوؤں کے طفیل پوری دنیا کے انسانوں کو بخش دیتا ....

Friday, 3 July 2015

صومالیہ میں نائٹ کلب کے مالک عبد اللہ کی خانہ کعبہ کا موذن بننے کی کہانی..


میں ایک مشہور گلوکار تها لیکن پهر جب میں جب نائٹ کلب کا مالک بن گیا تو پھر وہاں گانے گاتا مقدیشو کے ہوٹل اور نائٹ کلب میری بکنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ رقومات پیش کرتے۔ راتوں کو زندہ کرنے کیلئے، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مزید پاپولر بنانے کیلئے میں نت نئے ناٹک رچاتا۔ عریاں ڈانس، فحش مکالمات اور عشقیہ گیتوں کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارا مقصد حیات بن چکا تھا۔ جب یہ چیزیں میسر ہوں تو پھر شیطان خوب خوش ہوتا ہے۔ بگڑے ہوئے گھرانے، ان کی امیر لڑکیاں، اور لڑکے، شراب، نشہ، ہیروئن سب کچھ میسر تھا۔ رقص گاہیں ہماری وجہ سے آباد تھیں۔ شیطان کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہمارے ارد گرد بدکار لوگوں کا ایک بڑا گروہ تھا
ہم نے بھی اسلامی اقدار کو ختم کرنے اور شیطانی مجالس کو فروغ دینے میں ساری قوتیں صرف کر دیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان تھے۔ اسلامی روح کے بغیر ظاہری حد تک میں نے کتنے ہی یورپی ممالک کا سفر کیا ۔ وہاں نائٹ کلبوں میں گاتا رہا، صومال کے آرٹ کو اجاگر کرتا رہا، مغرب کو خوش کرنے کیلئے کہ ہم ترقی پسند قوم ہیں میرے ایمان کا، اسلام کا اور اخلاق کا جنازہ نکلتا گیا مگر میری جیب بھرتی گئی۔
"1983 ء میں میرے والد نے اپنے ہی خاندان میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔ خوب ہلاگلا ہوا۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہوئے۔ یقینا یہ ایک یادگار شادی تھی۔
"شادی کے دوران میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ میری بیوی اتنی زیادہ خوش و خرم نہیں ہے جتنا کہ میرے جیسے معروف آدمی سے شادی کے بعد کسی لڑکی کو خوش اور فخرہونا چاہیے۔ میں نے اس کو اس کی فطری حیا پر محمول کیا میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب صبح گھر آتا ہوں تو میری بیوی جاگ رہی ہوتی ہے اور عموماً اس کے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا ہے جسے وہ پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں آکر اسے بڑے جوشیلے انداز میں اس رات کی کارکردگی سناتا۔ اپنے پرستاروں کی چاہت سے آگاہ کرتا۔ آج کتنی لڑکیوں اور لڑکیوں کے فون آئے جو میرے فن کے شیدائی ہیں۔ میری بیوی ان باتوں کو ناگواری سے سنتی اور میرے لیے ہدایت کی دعا کرتی۔ اس دوران میں فجر کی اذان ہوجاتی اور وہ مصلے کی طرف بڑھ جاتی، جب کہ میں نماز پڑھے بغیر ہی سو جاتا۔ میں جب بھی اس سے نائٹ کلب کا ذکر کرتا، وہاں کی باتیں سنانا، اپنی کمائی کا ذکر کرتا، بینک بیلنس کا رعب جماتا تو وہ جواباً کہتی: "رازق تو صرف اللہ کی ذات ہے"
"ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ میں مسلسل اپنے فن میں مبتلا اور فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نماز اور عبادت کے بغیر زندگی گزارتا رہا پھر اچانک ہماری زندگی میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ 1988کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ سے کہا:"میں اس شخص کے ساتھ ہرگز زندگی نہیں گزارسکتی جو اپنے رب کا وفادار نہیں، جو نماز ادا نہیں کرتا اس کی کمائی حرام ہے جو فجر کے وقت گھر آتا ہے میری وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میری بیوی میرے لیے ایسا سوچ سکتی ہے۔ بہرحال گھر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ میں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کر دیں
"کچھ دن گزرے، ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ شہر کی مساجد میں اذانیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر طرف اللہ اکبر۔۔۔اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلاة کی گونج تھی۔ جب سونے کیلئے اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری بیوی نے کہا: "آپ مسجد میں نماز کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ کیا آپ نے اذان کی آواز نہیں سنی؟"
میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے مجھے نماز کیلئے کہا تھا۔ اس لمحے میں نے خود بھی نماز پڑھنے کے بارے میں سوچا میرے جسم میں جھرجھری سی آئی۔ بیوی کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی۔ "اس وقت مسلمان مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کیوں مسجد کا رخ نہیں کرتے؟ یہ رحمن کا بلاوہ ہے۔ یہ مالک الموت کی طرف سے دعوت ہے"اور پھر میرے ذہن میں خیر اور شر کی کشمکش ہوئی۔ فطرت کی آواز بلند ہوئی: تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے…..عبد اللہ…..تم اللہ کے بندے ہو۔ مگر نہیں…..تم تو شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہو۔ کبھی تم نے اپنے مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تم کب تک زندہ رہو گے ، کب تک زندگی رہے گی، کب تک جوانی رہے گی؟ میرے سامنے ماضی آگیا…..ضمیر نے ملامت شروع کی…..مگر فوراً کلب کی رعنائیاں، ٹیلی ویژن کی سکرین، اسٹیج، شہرت، عزت…..کیا میں بیوی کی بات مان لوں؟ یہ کام چھوڑ دوں؟ یہ مقام حاصل کرنے کیلئے میں نے بے حد محنت اور جدوجہد کی ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میں حسب عادت سو گیا"
"شام کے وقت میں نے کپڑے تبدیل کیے۔ کلب جانے کیلئے تیاری کی. میری بیوی نے میرے کان میں سرگوشی کی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہی تھی: ذرا بیٹھ جائیں…..ذرا میری بات تو سنیں…..کیا ہمارا رازق اللہ نہیں ہے؟ حلال کا ایک لقمہ حرام کے ہزاروں لقموں سے بہتر ہے
مجھے ایسا محسوس ہو اکہ بیوی کی آواز…..اس کی گفتگو…..اس کے کلمات…..یقینا درست ہیں۔ ان میں صداقت ہے…..یہ فطرت کی آواز ہیں…..مگر…..میرا فن…..میری آواز…..میری شہرت؟…..میں تیزی سے بھاگا کہیں بیوی کی بات مان نہ لوں"
"راستے میں بیوی کے کلمات میرا پیچھا کر رہے تھے کہ میں نائٹ کلب کے دروازے پر پہنچا۔ اس دوران عشاءکی نما ز کا وقت ہو چکا تھا۔ میرے کانوں میں موذن کی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی آواز گونجی…..حی علی الصلاة…..حی علی الفلاح….. "
"بیوی کی نصیحت یاد آئی…..اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ فسق و فجور اور کفر کے غبار کی تہ بیٹھنے لگی…..ایمان کی حرارت اور اسلام کی قوت زور دکھانے لگی…..اور پھر میرا رخ نائٹ کلب سے مسجد کی طرف ہو گیا"
"میں مسجد میں داخل ہوا، وضو کیا ۔ جماعت ہو رہی تھی، میں نے نماز ادا کی۔ بعض نمازیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کوئی ہاتھ ملا رہا ہے، کوئی دور سے سلام کر رہا ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور میرا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ الحمد اللہ میں نے فطرت کو پالیا ہے"
"کسی نے مجھے صحیح بخاری کا نسخہ تحفے میں دیا۔ یہ اب میرے لیے متاع حیات تھی…..میں اپنی نئی ماڈل کی قیمتی گاڑی میں سوار ہوا۔ اس کا رخ نائٹ کلب کی بجائے گھر کی طرف دیکھا۔ میری بیوی جو مجھے فجر کے وقت گھر آتے دیکھاکرتی تھی…..آج عشاءکے بعد گھر میں دیکھ رہی تھی۔ بیوی کی طرف بڑھا۔ "بیگم…..تمہیں مبارک ہو…..میں نے آج سے گانوں سے توبہ کرلی ہ۔ میں نے فسق وفجور اور لہو و لعب کی زندگی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ میں نے سچی توبہ کرلی ہے۔ میں الحمد اللہ تائب ہوگیا ہوں۔
"پھر میں نے محسوس کیا گویا میں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے سب سے پہلا کام وہ اسٹوڈیو، جس کا میں مالک تھا، جس میں گانے ریکارڈ کراتا تھا، جس میں دنیا بھر کی جدید مشینیں تھیں، جن کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرتا رہا تھا…..میں نے اس اسٹوڈیو کو دعوت الی اللہ کیلئے وقف کردیا کہ اب یہاں قرآن پاک کی کیسٹیں، علمائے کرام کی تقاریر اور اسلامی ترانے ریکارڈ ہونگے میں نے قیمتی گاڑی فروخت کردی، خوبصورت محل نما کوٹھی فروخت کردی…..میں ایک اوسط درجے کے مکان میں آگیا۔ اب میرا وقت اپنے گھر میں گزرنےلگا۔ میری ایک ہی تمناتھی…..ایک ہی جستجو…..میں حلقہ قرآن سے وابستہ ہو گیا…..اب مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کی خواہش تھی"
1990 میں عبد اللہ نے اپنے وطن کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور پھر وہ پہلی مرتبہ اس گھر کی زیارت کیلئے آیا جس کی زیارت اور جس کے گرد چکر لگانے کی تڑپ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا، نیک بخت بیوی بھی ہمراہ تھی۔ عمرہ ادا کیا تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں بعض اہل خیر کو معلوم ہوا ،وہ اس سے واقف تھے …..اس کی سابقہ زندگی سے…..اس کے ماضی سے ….. اس کی اسلام پر پختگی سے …..اور پھر انہوں نے عبد اللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی تکریم کی، اس کی کفالت کی ….. کچھ ہی عرصہ میں اس نے قرآن کے دس پارے حفظ کرلیے۔
اب وہ ایک مبلغ تھا عقیدہ کا، اسلام کا ، قرآن کا، حدیث کا پھر وہ اس دوران میں کئی مرتبہ عمرہ کرنے کیلئے مکہ مکرمہ آیا۔ پھر اس کو اس بلد الحرام میں، مکہ مکرمہ میں، اس مبارک اور مقدس شہر کی مقدس مسجد میں بطور موذن موقع مل گیا۔ عبد اللہ آج بھی مبلغ ہے، وہ موذن ہے اسلام کی آواز کا وہ سعودی عرب میں ہو یا صومال میں، ہر جگہ وہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور نجانے کتنے ہی گنہگاروں اور خطاکاروں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی ہے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنالی ہیں تاکہ وہ بھی حقیقی سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں بالکل اسی طرح جس طرح عبد اللہ سعادت حاصل کرچکا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل حق ہے:
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراة الصالحة ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"دنیا ایک پونجی (فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترین پونجی نیک بیوی ہے !
یا الله کریم تجھ کو تیرے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور تیری رحمت کا واسطہ عبد اللہ کی طرح ہم گنہگاروں کے دل اور ذہن بھی بھی بدل دے ، ہم کو ہدایت دے مالک اور قیامت کے دن شرمندہ ہونے سے بچا لے . آمین الٰھی آمین